Showing posts with label gastric ulcer. Show all posts
Showing posts with label gastric ulcer. Show all posts

Wednesday, September 11, 2013

معدے کی بیماریاں

جسم انسانی میں معدہ کی اہمیت اپنی جگہ مستحکم ہے مگر وہ خوراک کے ہضم کرنے میں زیادہ اہم کردار نہیں رکھتا۔ سب سے پہلے وہ اندر آنے والی غذا کا اسٹور بنتا ہے۔ پھر اس میں موجود نمک کا تیزاب اور Pepsinمل کر کھانے کو ہضم کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔ دوسرے افعال معمولی نوعیت کے ہیں۔ چونکہ یہاں پر خوراک زیادہ ہضم نہیں ہوتی اس لیے انجزاب کا عمل بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ ہضم اور انجذاب کا سارا سلسلہ چھوٹی آنت میں عمل پاتا ہے۔ تیزابی ماحول میں آدھ گھنٹہ گزارنے کے بعد خوراک کو چھوٹی آنت کی طرف روانہ کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ چھوٹی آنت میں تیزابیت ناپسندیدہ ہے اس لیے اس کے سب سے پہلے حصہ Duodenumکی جھلیوں سے سوڈا بائی کا رب پیدا ہوتا ہے جو معدہ سے آنے والی غذا کی تیزابیت کو ختم کرتا ہے۔

معدہ میں ہر وقت نمک کا تیزاب Hydrochloric Acidموجود رہتا ہے۔ لیکن یہ اس کی دیوار کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ قدرت نے ان دیواروں میں تیزاب سے مدافعت کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جو اس صلاحیت کو متاثر کرکے ختم کردیتا ہے اور تیزاب معدہ کی دیواروں کو کھا جاتا ہے۔ وہاں زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔زخم معدہ میں ہوں تو ان کو Gastric Ulcerاور اگر چھوٹی آنت کے پہلے حصہ میں ہوں توان کو Duodenal Ulcerکہا جاتا ہے۔ دونوں کو ملا کرPeptic Ulcerکا نام دیا گیا ہے۔
معدے کا السر مہذب سوسائٹی میں روزمرہ کی بات ہے۔ یورپ اور امریکا میں جہاں اعداد و شمار میسر ہیں یقین کیا جاتا ہے کہ 10فیصدی مردوں کو دونوں السروں میں سے ایک ضرور ہوگا۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بنیادی طور پر مردوں کی بیماری ہے اور عورتیں نسبتاً محفوظ ہیں کیوں کہ مردوں اور عورتوں میں معدہ کے السر کی شرح 4:1تھی اور آنت کے السر کی 2:1۔ لیکن اب صورت حال بدل کر مردوں اور عورتوں کا تناسب 2:1رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کاروبار‘ تفکرات‘ خوراک بلکہ شراب نوشی اور تمباکو نوشی میں مغربی ممالک کی عورتیں ہر طرح سے مردوں کی ہم پلہ ہوگئی ہیں اس لیے ان حرکات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی یہ برابر کی شریک ہیں۔
اسباب
پرانے طبیبوں کا خیال تھا کہ غذا میں بداعتدالیاں خاص طور پر مسالے دار غذائیں اور تیز شرابیں معدہ کی جھلیوں کو کمزور کردیتی ہیں اور تیزاب ان کو کھا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ہندوستان کے جنوبی حصے میں کھٹائی کا زیادہ شوق السر کی زیادتی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
اس بیماری کا اب ایک نیا سبب معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی شخص ہر وقت سڑتا اور کڑھتا رہتا ہے تو اس عمل میں اس کے معدہ کی دیواروں میں دورانِ خون میں کمی آجاتی ہے۔ خون کی کمی کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت کے کمزور پڑتے ہی وہاں پر موجود تیزاب دیوار کا ایک کونا کھا لیتا ہے۔ یہ دیواریں اتنی بھی کمزور نہیں ہوتیں کہ تیزاب پوری دیوار یا پوری اندرونی جھلی کو گلا دے۔ ان کی کمزوری سے تیزاب کو کبھی کبھار ہی ایک آدھ کونا کھا لینے کا موقعہ ملتا ہے لیکن باقی حصہ اسی طرح تیزاب کی موجودگی کے باوجوداپنی حیثیت اور تندرستی قائم رکھتا ہے۔
کاروباری حضرات‘ سرجن‘ پائلٹ‘ پریشانی کا کام کرنے والے اور مصیبت کے دن گزارنے والوں کو اکثر السر ہوجاتے ہیں۔ جوڑوں کے دردوں میں استعمال ہونے والی اکثر دوائیں اگر درد کو آرام دیتی ہیں تو پیٹ میں السر بھی پیدا کرتی ہیں۔ اسپرین کا السر سے براہ راست تعلق ثابت ہوچکا ہے۔ کچھ السر ایسے ہیں جو معدہ میں ہونے کے باوجود مدتوں خاموش‘ تکلیف دیئے بغیرپڑے رہتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں سے کسی کو اگر اسپرین کھانی پڑے تو اس کے فوراً بعد زخموں سے خون نکلنے لگتا ہے اور تب انھیں اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اسپرین میں موجود تیزاب معدے کی جھلیوں کی قوت مدافعت کو براہ راست ختم کرتے ہیں۔ جوڑوں کے درد کے لیے استعمال ہونے والی جدید ادویہ میں سے اکثر اپنی کیمیاوی ساخت میں اسپرین سے مختلف ہیں لیکن ان میں موجود کیمیاوی اجزاءہر مرتبہ السر بنا دیتے ہیں۔ یہاں پر دو برائیوں میں سے ایک کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سمجھدار معالج جب بھی جوڑوں کے درد کے لیے دوائی تجویز کرتے ہیں تو ساتھ میں تیزاب کی شدت کو کم کرنے والی دوائی ضرور دیتے ہیں۔ اس عمل کو اطباءعرب نے بدرقہ یا مصلح کا نام دیا تھا۔
شراب نوشی‘ تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثات‘آپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب Histamineپیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دوائوں میں سے Cemitidineبنیادی طور پر Histamineکو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔ جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔
اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘ کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔ اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے۔ جنسی ہارمون اور کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔
50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔ جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
پیٹ کے وسط میں پسلیوں کے نیچے جلن سے بیماری کی ابتداءکا پتا چلتا ہے جسے عام انگریزی میں لوگ Heart Burnکہتے ہیں۔ یہ جلن بڑھتے بڑھتے درد کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ درد کے اوقات واضح اور مقرر ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر دو کھانوں کی درمیان محسوس ہوتا ہے۔ مریضوں کو بھوک کا احساس درد سے ہوتا ہے۔کیونکہ یہ خالی پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ اکثر مریض کھانا کھانے کے بعد آرام محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیٹ کے تیزاب کھانے کو ہضم کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں اس طرح وہ زخم پر لگ کر تھوڑی دیر کے لیے درد کا باعث نہیں بن سکتے۔
معدہ سے غذا کو مکمل طور پر نکل کر آنتوں میں جانے میں 2گھنٹے سے زائد عرصہ لگتا ہے معدہ 2-3گھنٹوں میں خالی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اب تیزاب زخم پر لگ کر درد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے یا مریض کو درد کی تکلیف کھانے کے 2-3گھنٹہ بعد محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو اگر قے ہوجائے تو تیزاب کی کافی مقدار باہر نکل جاتی ہے اور درد میں کافی دیر کے لیے افاقہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس تفکرات‘ پریشانیاں‘ دہشت‘ شراب اور اسپرین درد میں اضافہ کرتے ہیں۔
السر کا درد ایک مخصوص مقام پر ہوتا ہے۔ اکثر مریض سوال کرنے پر درد کی جگہ انگلی رکھ کر صحیح نشان دہی کرسکتے ہیں۔ سوڈا بائی کارب کی تھوری سی مقدار بھی اس میں کمی لاسکتی ہے۔ درد اگر معدہ کے السر کی وجہ سے ہو تو یہ زیادہ عرصہ نہیں رہتا۔ اگر چہ لوگ 20سال تک بھی اس میں مبتلا رہتے ہیں مگر عام طور پر اس سے بہت پہلے یہ پھٹ جاتا ہے یا کنسر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی زیادہ مدت بھی چل جاتا ہے۔ یہ درد پیٹ کے علاوہ گردن سے نیچے کندھوں کے درمیان بھی محسوس ہوسکتا ہے۔
السر میں تشخیص کا سارا دارو مدار درد کی نوعیت۔ اس کے اوقات اور اس کے کھانے پینے سے تعلق پر ہوتا ہے۔ معدے کے السر میں مریض کو بھوکے پیٹ درد ہوتا ہے لیکن کھانا کھانے سے آرام ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کو درد کے بغیر ایک روز ناگہانی طور پر پتا چلتا ہے کہ قے کے ساتھ خون آرہا ہے اور ان کے پیٹ میں السر ہوگیا ہے۔ ورنہ عام طور پر سب سے پہلے جلن ہوتی ہے۔ پھر منہ میں کھٹا پانی آجاتا ہے (Water Brash) بھوک کم ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد پیٹ میں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ جی متلانا اور قے ضروری نہیں لیکن قے اگرآجائے تو اس سے بڑا سکون محسوس ہوتا ہے۔ قے اگر بار بار آئے اور خاصی مقدار میں ہوتو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معدہ کا آنتوں کی طرف سے منہ بند ہے یا اس میں جزوی طور پر رکاوٹ آگئی ہے۔ بدہضی السر کے مریضوں کا خاصہ ہے لیکن اجابت کا نظام بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ البتہ کبھی قبض اور کبھی اسہال روزمرہ کی بات بن جاتے ہیں۔ ان تمام امور سے مریض کی غذائی حالت متاثر ہوتی ہے۔ اس کا وزن کم ہونے لگتا ہے اور کمزوری بڑھتی ہے۔
السریوں بھی گھبراہٹ اور بے سکونی کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ اوپر سے جب بدہضمی اور بھوک کی کمی شامل ہوں تو مریض کا حال مزید خراب ہوجاتا ہے۔
پیچیدگیاں
السر کی سب سے بڑی خرابی یا دہشت اس کا پھٹ جانا یا اندر خون بہنا ہے۔ عام طور پر کسی السر سے اپنے آپ جریان خون شروع نہیں ہوتا۔ بلکہ مریض شراب پیتا ہے‘ اسپرین کھاتا ہے یا جوڑوں کے درد کی دوائوں میں خاص طور پر Phenyl Butazone Cortisoneکھاتا ہے تو یہ پھٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیہوشی‘ کمزوری‘ چکر‘ ٹھنڈے پسینے آتے ہیں‘ نبض کمزور پڑجاتی ہے۔
اسی طرح معدہ کی دیوار میں آر پار سوراخ ہوسکتا ہے۔ جس میں پیٹ تختے کی طرح سخت ہوجاتا ہے شدید درد‘ بخار‘ شدید قسم کا Peritonitisہوجاتا ہے۔
معدہ کا وہ منہ جو آنتوں کی طرف کھلتا ہے بند ہوسکتا ہے۔ راستہ بند ہونے پر غذا معدہ سے نہ تو آگے جاسکتی ہے اور نہ ہی جسم کی توانائی قائم رہ سکتی ہے۔ جتنی دیر معدہ غذا کو روک سکتا ہے روکے رکھتا ہے پھر قے کی صورت میں ساری غذا ایک دم سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس قے سے طبیعت کو بڑا سکون ملتا ہے مگر یہ سکون ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانی اور نمک کی فوری کمی واقع ہوجانے سے وہ تمام علامات پیدا ہوجاتی ہیں جو ہیضہ اور اسہال میں ہوتی ہیںساتھ ہی خون کی کمی اور جسمانی کمزوری آن لیتے ہیں۔ معدہ پھیل جاتا ہے جسے Acute Gastric Dilatationکہتے ہیں۔
السر کی 10فیصدی اقسام کنسر میں تبدیل ہوسکتی ہیں
یہ تمام پیچیدگیاں خطرناک ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جان لے سکتی ہے۔ اگرچہ ان میں بعض کا دوائوں سے علاج ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ طے کرنا کہ کون سے مریض کو بہتری ہورہی ہے اور کون سے کے حالات خراب ہورہے ہیں تجربہ کار اور مسند معالج کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ موٹی بات یہ ہے کہ ان تمام حالات میں کسی قسم کے علاج کی کوشش کرنے کی بجائے مریض کو ایسے ہسپتال میں داخل کردیا جائے جہاں پیٹ کے آپریشن کا معقول انتظام موجود ہو۔ ان کیفیات میں کسی قسم کا التوا موت کا باعث ہوسکتا ہے۔
علاج
ان زخموں کا دوائوں سے اگرچہ علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں گڑبڑ پیدا ہونے کی وجہ سے ماہرین کی رائے میں ایک عام ڈاکٹر اور سرجن باہمی مشورہ سے مریض کا علاج کریں یا کوئی سرجن صورت حال سے آگاہ رہے۔ تاکہ زخم سے سوراخ پیدا ہونے یا کسی نالی کے پھٹ جانے کے بعد پیٹ میں ہونے والے جریان خون کو روکنے یا مریض کی جان بچانے کے لیے ہنگامی آپریشن کا بندوبست پہلے سے موجود ہو۔
غذا
ماہرین ابھی تک متفق نہیں کہ مریض کے لیے مناسب غذا کونسی ہونی چاہئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسالے دار غذائیں چونکہ بھوک کو بڑھاتی ہیں اس لیے دنیا میں ہر جگہ مسالوں اور مرچوں سے منع کردیا جاتا ہے۔ انگریز ڈاکٹر تو صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ مریض کو جو ناپسند ہو یا جس سے تکلیف ہوتی ہو اسے کھانا چھوڑ دے۔ تمباکونوشی کے دوران علاج بیکار ہوتا ہے۔
ہمارے ذاتی مشاہدے میں زیادہ مسالے یقینا خراب کرتے ہیں لیکن معتدل مقدار میں گھر کا پکا ہوا معمولی مرچوں والا کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ البتہ جب مرض کی شدت کا دورہ پڑا ہو تو اس وقت مرچوں سے پرہیز ضروری ہے۔ ہم نے کھٹائی اور چکنائی کو ہمیشہ تکلیف کو بڑھانے والا پایا۔ کھٹی چیزیں خواہ وہ سنگترا ہی کیوں نہ ہو تیزابیت میں اضافہ کرتا ہے اور چکنائی چونکہ معدہ میں ہضم نہیںہوتی اس لیے تبخیر پیدا کرکے تکلیف کا باعث بنتی۔
طب جدید میں لوگوں کو دودھ پر ضرورت سے زیادہ اعتقاد رہا ہے۔ بعض مریضوں کو علاج کے ابتدائی ایام میں دن میں چار چار مرتبہ دودھ پلایا جاتا رہا ہے۔دودھ تیزاب کی تیزی کو مار دیتا ہے لیکن پیٹ کے اکثر مریض دودھ ہضم نہیں کرسکتے بلکہ دودھ کی مٹھاس (Lactose)جراثیم کی کچھ قسموں کی پرورش میں مددگار ہوتی ہے۔ دودھ پینے سے جلن اور درد میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ آرام وقتی ہوتا ہے۔ جب تیزاب پھر سے پیدا ہوتا ہے تو جلن پھر سے نمودار ہوجاتی ہے۔

Wednesday, February 29, 2012

Top Homeopathic Medicines for Acidity, Hyper-acidity, Gastralgia Part-2


Top Homeopathic Medicines for  Acidity, Hyper-acidity, Gastralgia Part-2

Symptoms/Problems
Burning pain in the stomach, with water vomited but solid retained
Suggested Medicine
Bismuth 30

Symptoms/Problems
Burning in food pipe, with sour stool
Suggested Medicine
Natrum carb.30

Symptoms/Problems
Excess of hydrochloric acid,burning in food pipe,heart burn,nausea and chilly feeling.
Suggested Medicine
Acid-sulph.30

Monday, February 27, 2012

Top Homeopathic Medicines for Acidity, Hyperacidity, Gastralgia Part-1

Top Homeopathic Medicines for

Acidity, Hyperacidity, Gastralgia Part-1

Symptoms/Problems
Burning in food pipe with general sensation of burning
Suggested Medicine
Sulphur 30

Symptoms/Problems
Burning pain in stomach (Ulcer), with both water and solid vomited as soon as it reaches stomach
Ars alb.30

Intercurrent Remedy

Psorinum 30


Friday, November 4, 2011

Eid ul Azha and Homeopathy Stomach related problems

Eid ul Azha and Homeopathy Stomach related problems


Eid ul Azha is one of the important day for Muslim. On this day all the Muslims forfeit their domestic animals like sheep and goat representing Abraham’s forfeit. This forfeit made by Muslims is known as “Qurban”.
All the rich and poor eat plenty of meat and beaf. Resultantly, stomach problems are commonly noted in these day.
I am sharing very effective homeopathic medicines related to stomach problems. Hope homeopathy will help in relieving these disorders.

Homeopathic Medicines with most important symptoms pertaining to stomach


Argentum Nitricum
help calm burping, gas, reflux, gallbladder weakness, ulcers, painful swelling of stomach, much flatulent distention.

Arsenicum Album
relieves gastritis, diarrhea, burning sensation in stomach,

Monday, July 20, 2009

Tip of the day

PEPTIC ULCERS AND HOMEOPATHY

Peptic ulcers are open sores or erosions in the mucosal lining of either the duodenum (duodenal ulcers) or the stomach (gastric ulcers) due to irritants (may be allergic, chemical or mechanical or drugs), excessive secretion of digestive juice or infection.
Following homeopathic medicine are commonly used on the basis of matching symptoms.
Nux vomica ,Lycopodium,Robinia ,Acetic Acid ,Arsenicum Album ,Bismuth, Condurango, Crotalus Horridus-,Graphites ,Hydrastis , Iodum ,Kali Bichromicum -