Wednesday, September 11, 2013

Tips and Secrets in Urdu Part 16


Tips and Secrets in Urdu Part 15


Joints Pain in Urdu, Tibb e Nabvi se elaj جوڑوں کا درد


معدے کی بیماریاں

جسم انسانی میں معدہ کی اہمیت اپنی جگہ مستحکم ہے مگر وہ خوراک کے ہضم کرنے میں زیادہ اہم کردار نہیں رکھتا۔ سب سے پہلے وہ اندر آنے والی غذا کا اسٹور بنتا ہے۔ پھر اس میں موجود نمک کا تیزاب اور Pepsinمل کر کھانے کو ہضم کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔ دوسرے افعال معمولی نوعیت کے ہیں۔ چونکہ یہاں پر خوراک زیادہ ہضم نہیں ہوتی اس لیے انجزاب کا عمل بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ ہضم اور انجذاب کا سارا سلسلہ چھوٹی آنت میں عمل پاتا ہے۔ تیزابی ماحول میں آدھ گھنٹہ گزارنے کے بعد خوراک کو چھوٹی آنت کی طرف روانہ کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ چھوٹی آنت میں تیزابیت ناپسندیدہ ہے اس لیے اس کے سب سے پہلے حصہ Duodenumکی جھلیوں سے سوڈا بائی کا رب پیدا ہوتا ہے جو معدہ سے آنے والی غذا کی تیزابیت کو ختم کرتا ہے۔

معدہ میں ہر وقت نمک کا تیزاب Hydrochloric Acidموجود رہتا ہے۔ لیکن یہ اس کی دیوار کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ قدرت نے ان دیواروں میں تیزاب سے مدافعت کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جو اس صلاحیت کو متاثر کرکے ختم کردیتا ہے اور تیزاب معدہ کی دیواروں کو کھا جاتا ہے۔ وہاں زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔زخم معدہ میں ہوں تو ان کو Gastric Ulcerاور اگر چھوٹی آنت کے پہلے حصہ میں ہوں توان کو Duodenal Ulcerکہا جاتا ہے۔ دونوں کو ملا کرPeptic Ulcerکا نام دیا گیا ہے۔
معدے کا السر مہذب سوسائٹی میں روزمرہ کی بات ہے۔ یورپ اور امریکا میں جہاں اعداد و شمار میسر ہیں یقین کیا جاتا ہے کہ 10فیصدی مردوں کو دونوں السروں میں سے ایک ضرور ہوگا۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بنیادی طور پر مردوں کی بیماری ہے اور عورتیں نسبتاً محفوظ ہیں کیوں کہ مردوں اور عورتوں میں معدہ کے السر کی شرح 4:1تھی اور آنت کے السر کی 2:1۔ لیکن اب صورت حال بدل کر مردوں اور عورتوں کا تناسب 2:1رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کاروبار‘ تفکرات‘ خوراک بلکہ شراب نوشی اور تمباکو نوشی میں مغربی ممالک کی عورتیں ہر طرح سے مردوں کی ہم پلہ ہوگئی ہیں اس لیے ان حرکات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی یہ برابر کی شریک ہیں۔
اسباب
پرانے طبیبوں کا خیال تھا کہ غذا میں بداعتدالیاں خاص طور پر مسالے دار غذائیں اور تیز شرابیں معدہ کی جھلیوں کو کمزور کردیتی ہیں اور تیزاب ان کو کھا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ہندوستان کے جنوبی حصے میں کھٹائی کا زیادہ شوق السر کی زیادتی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
اس بیماری کا اب ایک نیا سبب معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی شخص ہر وقت سڑتا اور کڑھتا رہتا ہے تو اس عمل میں اس کے معدہ کی دیواروں میں دورانِ خون میں کمی آجاتی ہے۔ خون کی کمی کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت کے کمزور پڑتے ہی وہاں پر موجود تیزاب دیوار کا ایک کونا کھا لیتا ہے۔ یہ دیواریں اتنی بھی کمزور نہیں ہوتیں کہ تیزاب پوری دیوار یا پوری اندرونی جھلی کو گلا دے۔ ان کی کمزوری سے تیزاب کو کبھی کبھار ہی ایک آدھ کونا کھا لینے کا موقعہ ملتا ہے لیکن باقی حصہ اسی طرح تیزاب کی موجودگی کے باوجوداپنی حیثیت اور تندرستی قائم رکھتا ہے۔
کاروباری حضرات‘ سرجن‘ پائلٹ‘ پریشانی کا کام کرنے والے اور مصیبت کے دن گزارنے والوں کو اکثر السر ہوجاتے ہیں۔ جوڑوں کے دردوں میں استعمال ہونے والی اکثر دوائیں اگر درد کو آرام دیتی ہیں تو پیٹ میں السر بھی پیدا کرتی ہیں۔ اسپرین کا السر سے براہ راست تعلق ثابت ہوچکا ہے۔ کچھ السر ایسے ہیں جو معدہ میں ہونے کے باوجود مدتوں خاموش‘ تکلیف دیئے بغیرپڑے رہتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں سے کسی کو اگر اسپرین کھانی پڑے تو اس کے فوراً بعد زخموں سے خون نکلنے لگتا ہے اور تب انھیں اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اسپرین میں موجود تیزاب معدے کی جھلیوں کی قوت مدافعت کو براہ راست ختم کرتے ہیں۔ جوڑوں کے درد کے لیے استعمال ہونے والی جدید ادویہ میں سے اکثر اپنی کیمیاوی ساخت میں اسپرین سے مختلف ہیں لیکن ان میں موجود کیمیاوی اجزاءہر مرتبہ السر بنا دیتے ہیں۔ یہاں پر دو برائیوں میں سے ایک کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سمجھدار معالج جب بھی جوڑوں کے درد کے لیے دوائی تجویز کرتے ہیں تو ساتھ میں تیزاب کی شدت کو کم کرنے والی دوائی ضرور دیتے ہیں۔ اس عمل کو اطباءعرب نے بدرقہ یا مصلح کا نام دیا تھا۔
شراب نوشی‘ تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثات‘آپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب Histamineپیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دوائوں میں سے Cemitidineبنیادی طور پر Histamineکو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔ جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔
اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘ کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔ اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے۔ جنسی ہارمون اور کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔
50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔ جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
پیٹ کے وسط میں پسلیوں کے نیچے جلن سے بیماری کی ابتداءکا پتا چلتا ہے جسے عام انگریزی میں لوگ Heart Burnکہتے ہیں۔ یہ جلن بڑھتے بڑھتے درد کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ درد کے اوقات واضح اور مقرر ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر دو کھانوں کی درمیان محسوس ہوتا ہے۔ مریضوں کو بھوک کا احساس درد سے ہوتا ہے۔کیونکہ یہ خالی پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ اکثر مریض کھانا کھانے کے بعد آرام محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیٹ کے تیزاب کھانے کو ہضم کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں اس طرح وہ زخم پر لگ کر تھوڑی دیر کے لیے درد کا باعث نہیں بن سکتے۔
معدہ سے غذا کو مکمل طور پر نکل کر آنتوں میں جانے میں 2گھنٹے سے زائد عرصہ لگتا ہے معدہ 2-3گھنٹوں میں خالی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اب تیزاب زخم پر لگ کر درد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے یا مریض کو درد کی تکلیف کھانے کے 2-3گھنٹہ بعد محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو اگر قے ہوجائے تو تیزاب کی کافی مقدار باہر نکل جاتی ہے اور درد میں کافی دیر کے لیے افاقہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس تفکرات‘ پریشانیاں‘ دہشت‘ شراب اور اسپرین درد میں اضافہ کرتے ہیں۔
السر کا درد ایک مخصوص مقام پر ہوتا ہے۔ اکثر مریض سوال کرنے پر درد کی جگہ انگلی رکھ کر صحیح نشان دہی کرسکتے ہیں۔ سوڈا بائی کارب کی تھوری سی مقدار بھی اس میں کمی لاسکتی ہے۔ درد اگر معدہ کے السر کی وجہ سے ہو تو یہ زیادہ عرصہ نہیں رہتا۔ اگر چہ لوگ 20سال تک بھی اس میں مبتلا رہتے ہیں مگر عام طور پر اس سے بہت پہلے یہ پھٹ جاتا ہے یا کنسر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی زیادہ مدت بھی چل جاتا ہے۔ یہ درد پیٹ کے علاوہ گردن سے نیچے کندھوں کے درمیان بھی محسوس ہوسکتا ہے۔
السر میں تشخیص کا سارا دارو مدار درد کی نوعیت۔ اس کے اوقات اور اس کے کھانے پینے سے تعلق پر ہوتا ہے۔ معدے کے السر میں مریض کو بھوکے پیٹ درد ہوتا ہے لیکن کھانا کھانے سے آرام ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کو درد کے بغیر ایک روز ناگہانی طور پر پتا چلتا ہے کہ قے کے ساتھ خون آرہا ہے اور ان کے پیٹ میں السر ہوگیا ہے۔ ورنہ عام طور پر سب سے پہلے جلن ہوتی ہے۔ پھر منہ میں کھٹا پانی آجاتا ہے (Water Brash) بھوک کم ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد پیٹ میں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ جی متلانا اور قے ضروری نہیں لیکن قے اگرآجائے تو اس سے بڑا سکون محسوس ہوتا ہے۔ قے اگر بار بار آئے اور خاصی مقدار میں ہوتو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معدہ کا آنتوں کی طرف سے منہ بند ہے یا اس میں جزوی طور پر رکاوٹ آگئی ہے۔ بدہضی السر کے مریضوں کا خاصہ ہے لیکن اجابت کا نظام بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ البتہ کبھی قبض اور کبھی اسہال روزمرہ کی بات بن جاتے ہیں۔ ان تمام امور سے مریض کی غذائی حالت متاثر ہوتی ہے۔ اس کا وزن کم ہونے لگتا ہے اور کمزوری بڑھتی ہے۔
السریوں بھی گھبراہٹ اور بے سکونی کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ اوپر سے جب بدہضمی اور بھوک کی کمی شامل ہوں تو مریض کا حال مزید خراب ہوجاتا ہے۔
پیچیدگیاں
السر کی سب سے بڑی خرابی یا دہشت اس کا پھٹ جانا یا اندر خون بہنا ہے۔ عام طور پر کسی السر سے اپنے آپ جریان خون شروع نہیں ہوتا۔ بلکہ مریض شراب پیتا ہے‘ اسپرین کھاتا ہے یا جوڑوں کے درد کی دوائوں میں خاص طور پر Phenyl Butazone Cortisoneکھاتا ہے تو یہ پھٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیہوشی‘ کمزوری‘ چکر‘ ٹھنڈے پسینے آتے ہیں‘ نبض کمزور پڑجاتی ہے۔
اسی طرح معدہ کی دیوار میں آر پار سوراخ ہوسکتا ہے۔ جس میں پیٹ تختے کی طرح سخت ہوجاتا ہے شدید درد‘ بخار‘ شدید قسم کا Peritonitisہوجاتا ہے۔
معدہ کا وہ منہ جو آنتوں کی طرف کھلتا ہے بند ہوسکتا ہے۔ راستہ بند ہونے پر غذا معدہ سے نہ تو آگے جاسکتی ہے اور نہ ہی جسم کی توانائی قائم رہ سکتی ہے۔ جتنی دیر معدہ غذا کو روک سکتا ہے روکے رکھتا ہے پھر قے کی صورت میں ساری غذا ایک دم سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس قے سے طبیعت کو بڑا سکون ملتا ہے مگر یہ سکون ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانی اور نمک کی فوری کمی واقع ہوجانے سے وہ تمام علامات پیدا ہوجاتی ہیں جو ہیضہ اور اسہال میں ہوتی ہیںساتھ ہی خون کی کمی اور جسمانی کمزوری آن لیتے ہیں۔ معدہ پھیل جاتا ہے جسے Acute Gastric Dilatationکہتے ہیں۔
السر کی 10فیصدی اقسام کنسر میں تبدیل ہوسکتی ہیں
یہ تمام پیچیدگیاں خطرناک ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جان لے سکتی ہے۔ اگرچہ ان میں بعض کا دوائوں سے علاج ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ طے کرنا کہ کون سے مریض کو بہتری ہورہی ہے اور کون سے کے حالات خراب ہورہے ہیں تجربہ کار اور مسند معالج کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ موٹی بات یہ ہے کہ ان تمام حالات میں کسی قسم کے علاج کی کوشش کرنے کی بجائے مریض کو ایسے ہسپتال میں داخل کردیا جائے جہاں پیٹ کے آپریشن کا معقول انتظام موجود ہو۔ ان کیفیات میں کسی قسم کا التوا موت کا باعث ہوسکتا ہے۔
علاج
ان زخموں کا دوائوں سے اگرچہ علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں گڑبڑ پیدا ہونے کی وجہ سے ماہرین کی رائے میں ایک عام ڈاکٹر اور سرجن باہمی مشورہ سے مریض کا علاج کریں یا کوئی سرجن صورت حال سے آگاہ رہے۔ تاکہ زخم سے سوراخ پیدا ہونے یا کسی نالی کے پھٹ جانے کے بعد پیٹ میں ہونے والے جریان خون کو روکنے یا مریض کی جان بچانے کے لیے ہنگامی آپریشن کا بندوبست پہلے سے موجود ہو۔
غذا
ماہرین ابھی تک متفق نہیں کہ مریض کے لیے مناسب غذا کونسی ہونی چاہئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسالے دار غذائیں چونکہ بھوک کو بڑھاتی ہیں اس لیے دنیا میں ہر جگہ مسالوں اور مرچوں سے منع کردیا جاتا ہے۔ انگریز ڈاکٹر تو صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ مریض کو جو ناپسند ہو یا جس سے تکلیف ہوتی ہو اسے کھانا چھوڑ دے۔ تمباکونوشی کے دوران علاج بیکار ہوتا ہے۔
ہمارے ذاتی مشاہدے میں زیادہ مسالے یقینا خراب کرتے ہیں لیکن معتدل مقدار میں گھر کا پکا ہوا معمولی مرچوں والا کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ البتہ جب مرض کی شدت کا دورہ پڑا ہو تو اس وقت مرچوں سے پرہیز ضروری ہے۔ ہم نے کھٹائی اور چکنائی کو ہمیشہ تکلیف کو بڑھانے والا پایا۔ کھٹی چیزیں خواہ وہ سنگترا ہی کیوں نہ ہو تیزابیت میں اضافہ کرتا ہے اور چکنائی چونکہ معدہ میں ہضم نہیںہوتی اس لیے تبخیر پیدا کرکے تکلیف کا باعث بنتی۔
طب جدید میں لوگوں کو دودھ پر ضرورت سے زیادہ اعتقاد رہا ہے۔ بعض مریضوں کو علاج کے ابتدائی ایام میں دن میں چار چار مرتبہ دودھ پلایا جاتا رہا ہے۔دودھ تیزاب کی تیزی کو مار دیتا ہے لیکن پیٹ کے اکثر مریض دودھ ہضم نہیں کرسکتے بلکہ دودھ کی مٹھاس (Lactose)جراثیم کی کچھ قسموں کی پرورش میں مددگار ہوتی ہے۔ دودھ پینے سے جلن اور درد میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ آرام وقتی ہوتا ہے۔ جب تیزاب پھر سے پیدا ہوتا ہے تو جلن پھر سے نمودار ہوجاتی ہے۔

Tuesday, September 3, 2013



CODE OF ETHICS OF HOMEOPATHIC PRACTICE 
تحریر و تحقیق : ڈاکٹر ماس . بی ایچ ایم ایس

پاکستان میں ہومیوپیتھک ڈپلومہ ہولڈرز ڈیڈھ لاکھ، رجسٹرڈ ہومیو ڈاکٹرز ایک لاکھ بیس ہزار جبکہ رینویل ہومیو ڈاکٹرز 60 ہزار سے زائد کی تعداد میں ہیں۔ مگر آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی ان میں سے95% سے زائد ہومیوپریکٹشنر زوہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی اس کتابچہ جسے ضابطہ اخلاق (Code of Ethics)کہتے ہیں کا کبھی مطالعہ کیا ہو جو وزارت صحت حکومت پاکستان نے قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی کی مشاورت سے چھٹی نمبر F.3-7/66 UAH کے تحت منظور کر رکھا ہے اوریونانی آیورویدک اور ہومیوپیتھک پریکٹشنرز ایکٹ 1965-2002 کی زیلی شق 33/4 کے تحت اسکی خلاف ورزی پر ہومیوپیتھک ڈاکٹر کا نام رجسٹرڈ پریکٹشنرز لسٹ سے خارج کیا جاسکتا ہے یا ایک خاص مدت تک کے لئے مزید پریکٹس کرنے سے روکا جاسکتاہے اور خاص حالات میں اس پر مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایک عام ہومیو ڈاکٹر میں شعور بیدار کرنے، ان میںہومیوپیتھک پریکٹس کے دوران ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرنے اور معاشرہ میں ایک اچھے، تعلیم یافتہ اور حلیم شخصیت کے طور پر شہرت حاصل کرنے یا پہچان بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ہومیو پریکٹشنر کو ضابطہ اخلاق کے بارے مکمل آگاہی دی جائے تاکہ ہومیو ڈاکٹرز اس ضابطہ اخلاق پر عمل کرکے نہ صرف اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں بلکہ ہومیوپیتھی شعبہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس شعبہ کیلئے نیک نامی کا باعث بھی ہوں۔ یہاں صرف ضابطہ اخلاق کی چیدہ چیدہ شقیں درج کی جارہی ہیں۔ اصل مسودہ کیلئے قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی سے جاری انگریزی زبان میںمہیا کوڈ آف ایتھکس کتابچہ کا مطالعہ کریں

ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی پہچان
ہومیوڈاکٹر ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض اعلیٰ ا خلاق کے ساتھ ،ایک بہترین اور مستند پیشہ ورانہ معالج کے طور پر اس طرح ادا کرے کہ اسکا اعزایہ صرف مریض کی صحت ہو نہ کے اسکی دولت۔
فیس نہیں تو دیکھ بھال نہیں (No Fees No care) والی مثال پر عمل کرنا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس سے اجتناب ضرروی ہے۔ کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جو آپکے وقار کے منافی ہو یا جس سے پیشہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔ ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ صرف ہومیو پیتھک کے تجویز کردہ زریں اصولوں کی مطابق ہی پریکٹس کرے۔

ہومیوڈاکٹرز کے لئے انتبائ
قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگرکسی ہومیوڈاکٹر کا غیر اخلاقی یاغیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونا ثابت ہوجائے یا وہ پیشہ کے منافی سرگرمیوں میں سرکردہ ہو تو اس صورت میں اس کی رجسٹریشن کلی یا ایک خاص مدت تک کیلئے منسوخ کردے۔ایسی طرح اپنی کسی پوسٹ یا عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھانا، اپنے ساتھی ہومیو ڈاکٹر پر جھوٹا الزام لگانا، پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کرنا یا غیر مقبول اقدامات کرنا ایسے جرم ہیں جس پر رجسٹریشن کلی طور پر منسوخ کی جاسکتی ہے۔

غیر تربیت یافتہ افراد کی بھرتی
کوئی ہومیو ڈاکٹر اپنے ساتھ بطور اسسٹنٹ غیر تربیت افراد کو ملازم نہ رکھے جو اس کی موجودگی یا غیر موجودگی میں مریضوں کیلئے علاج تجویز کرے ۔ ٹرینی سٹوڈنٹ یا ہاؤس جاب کرنے والاسٹاف اس سے مبرائ ہے۔ اسی طرح رجسٹرڈ ہومیو پریکٹشنرکو چاہئے کے وہ بھی کسی غیر تربیت یافتہ فرد کے کلینک پر اس کی معاونت نہ کرے۔

ہومیو فارماکوپیا سے انحراف
ہومیوڈاکٹرکو منظور شدہ ہومیوفارماکوپیا سے ہٹ کر پریکٹس کی اجازت نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یو اے ایچ ایکٹ شق نمبر 36 ۔ یاد رہے قومی کونسل نے ایک عدد فارماکوپیا چھاپ رکھا ہے جوکہ مرکزی حکومت (Federal Government) سے منظور شدہ ہے۔

پیشہ ورانہ فرائض وسرگرمیاں
ہومیو ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ کسی ہومیو سٹور یا کیمسٹ شاپ میں کلینک قائم نہ کرے یا اس سے علیحدہ تشخص قائم کرے۔ ہومیو ڈاکٹر اپنے کلینک، دوکان یا رہائش پر اپنے نام کے ساتھ حاصل کردہ ڈگریوں کا اندراج کرسکتا ہے مگر ایسا کلینک یا رہائش جہاں وہ وزٹ نہ کرتا ہو نیم پلیٹ (Name Plate) استعمال نہ کرے۔

دوسرے رجسٹرڈ اطبائ سے تعلق
ہومیوڈاکٹر کو چاہئے کہ کسی نئی جگہ کلینک کے آغاز پراخلاقی طور پر اپنے ہمسائیہ پریکٹشنر سے تعارفی ملاقات کرنی چاہئے ۔کلینک کے جو اوقات کار مقرر کریں اس میں ہومیو ڈاکٹر کو موجود ہونا چاہیے۔اقامتی ہومیو ڈاکٹر (Resident Homeopath) کو اختیار حاصل ہے کہ و زٹنگ ہومیو ڈاکٹر(Visiting Homeopath) کے دیر سے آنے پر مریض کا خود معائنہ کر لے۔ جب کسی ہومیو ڈاکٹر کو سرکاری طور پر کسی بھی میڈیکل کیس میں رپورٹ لکھنے کو کہا جائے تو وہ ایمانداری سے رپورٹ مرتب کرے ۔ اسی کیس پر پہلے سے قائم اپنے ساتھی پریکٹشنر کی رائے سے اختلاف سے اجتناب کرے۔اقامتی ہومیوڈاکٹر کے ہوتے ہوئے، ایمرجنسی کی صورت میں گھر پر مریض کو دیکھنے کےلئے بلائے جانے پروزٹنگ ہومیو ڈاکٹر اپنی سروس مہیا کرنے کے چارجز وصول کرسکتا ہے۔ اور وہی مریض دوبارہ معائنہ کے لئے اقامتی ہومیو ڈاکٹر کے بجائے وزٹنگ ہومیو ڈاکٹر سے براہ راست رابط کرلے تووزٹنگ ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ اخلاقی طور پر اقامتی ہومیو ڈاکٹر سے رابط کرکے مریض سے فیس وصول کرے ورنہ فیس نہ لے۔اگر کوئی مریض پہلے سے کسی ہومیو پریکٹشنر کے زیر علاج ہے تو اسی صورت میں بلائے گئے دوسرے ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ پہلے ہومیوپریکٹشنر سے رابطہ کرکے علاج تجویز کرے۔ ایسی طرح کوئی مریض پہلے ہی کسی ہومیو ڈاکٹر کے زیر علاج ہے مگروہ کسی وجہ سے آپ کے کلینک پر آجا تا ہے تو ایسی صورت میں معلوم ہو جانے پر آپ متعلقہ ہومیو ڈاکٹر کو اعتماد میں لیں اور اسے تجویزکردہ دو ا اور اس کے نتائج سے آگاہ رکھیں۔

غیر تربیت یافتہ افراد سے رابطہ یا تعلق
رجسٹرڈ ہومیو ڈاکٹر کسی ایسے شخص کو میڈیکل اسسٹنٹس مہیا نہ کرے یا اس کے ساتھ کاروباری پاٹنر شپ قائم نہ کرے جو کولیفائڈ رجسٹرڈ پریکٹشنر نہ ہو۔ ہومیو ڈاکٹر اپنی معاونت (Assistance) کےلئے صرف کولیفائڈ رجسٹرڈ نرس، سٹاف یا دائی وغیرہ رکھ سکتا ہے۔ مگر ایسے سٹاف کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مریض کا معائنہ کرکے دوا بھی تجویز کریں۔

ہومیو ڈاکٹر کی فیس اور کمیشن
ہومیو ڈاکٹر اپنی مشورہ فیس کی عوام الناس میں تشہیر نہ کرے۔ ہومیو ڈاکٹر کی کوئی مشورہ فیس مقرر نہیں۔ مگر علاقہ کی نوعیت، پیشہ ورانہ قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر اس کا اطلاق ممکن ہے۔ ہومیو پریکٹشنر کو چاہئے کہ وہ مناسب کم حدتک اپنی مشورہ فیس مقرر کر لے۔ عمومی طور پر ایسا کوئی قانونی ضابط تو نہیں کہ ایک ہومیو پریکٹشنر، دوسرے پریکٹشنر کسی بھی میڈیکل سائنس کے شعبہ کا یا اس کے خاندان کے فرد سے مشورہ فیس وصول نہیں کر سکتا ۔ مگر اعلیٰ اخلاق کا تقاضہ یہی ہے کہ کوئی ہومیو ڈاکٹر دوسرے ہومیوڈاکٹر یا اسکی فیملی بیوی بچے اور والدین سے فیس وصول نہ کرے اور نہ ہی ہومیوپیتھک سٹونٹ سے مشورہ فیس طلب کرے۔
کسی ہومیو ڈاکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے ہومیو ڈاکٹر سے فیس کی مد میں کمیشن وصول کرے۔ ایسا کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بعض حالات (Cases) میں غیر قانونی بھی۔ اسی طرح ادویات کو لکھنے، مریض کے لیبارٹری ٹیسٹ کروانے، سرجری کیلئے ریفر کرنے اور الٹراساونڈ یا ایکس رے کروانے کی مد میں کسی شخص یا ادارہ یا سٹور کیپر سے کسی قسم کاکمیشن نقدی یاتحفہ (Cash or Gift) کی صورت میں وصول کرنانہ صرف پیشہ ورانہ اصولوں کے منافی ہے بلکہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔ اسی طرح نرسسز، ٹیکسی یا رکشہ ڈرئیورز، ٹانگہ بان وغیرہ کو مریض ریفر کروانے یا لے کر آنے پر کمیشن دینا انتہائی غلیظ حرکت ہے جو کسی بھی طرح مسیہائی شعبہ کی غمازی نہیں کرتا۔ تفصیل کے لئے کوڈ آف ایتھکس کا مطالعہ کریں

مریض کے علاج سے انکار کی صورت
اخلاقی طور کسی مریض کے علاج سے انکار صرف اس وجہ سے نہیں کیا جاسکتا کہ مریض لاعلاج ہے یا مزید اب کچھ ممکن نہیں۔مگرکچھ خاص حالات میں انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلی شقوں کے لئے بروشر دیکھیں۔

ادویات کے استعمال میں احتیاط
کسی بھی فوڈ آئٹم تجویز کرتے وقت احتیاط برتی جائے۔جبکہ اس میں پائے جانے اجزائ کے بارے آپ معلومات بھی نہ رکھتے ہوں۔ایسی چیزوں پر کمیشن وصول کرنا، لیکچر کروانا، ٹور پروگرام ارینج کرنا اور اس میں شرکت کرنا انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔ ہومیو ڈاکٹرکیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ڈاکٹری نسخہ میں کسی قسم کا چھپا اشارہ (Code Word) استعمال کرے جسے وہ یا اسکا اسسٹنٹ یا سٹور کا مالک ہی سمجھ سکتا ہو۔ کسی ہومیو ڈاکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی فارمیسی کے مالک یا فارماسسٹ کے ساتھ کاروباری شراکت کرکے تجویز ادویات پر کمیشن یا منافع کمائے۔ کسی ہومیو پریکٹشنر کو اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی ہومیو فارمیسی / لیبارٹری کی پروڈکٹ یا دوا پر اپنی رائے کا اظہار کرے جب تک ادارہ یا فارمیسی اس بات کی گارنٹی نہ دے کے وہ رائے کسی بھی جگہ شائع نہیں کی جائے گی۔ ثبوت ملنے پر ہومیو ڈاکٹر کی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے۔

اشتہارات اور کنونسنگ

Advertisements
ہومیو پریکٹشنر کسی ایسی اشتہاری مہم یا پریکٹس کا حصہ نہیں بنے گا جس کا مقصد مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا، ان کے لئے کشش پیدا کرنا، اشتہارات لگانا یا کسی قسم کے پیکج کا اعلان کرنا شامل ہو ۔ ایسی طرح اپنے ناموں کے کارڈوں کو ھوٹل، دوکان یا دوسری جگہوں پر رکھوانا یا چھوڑنا غلط ہے۔ اپنی تصویر کو اشتہاری نقطہ نگاہ سے دینا یا اخبارات میں پمفلٹ رکھوانا یاتقسیم کرنا ممنوع ہے۔ٹی وی یا ریڈیو وغیرہ پر کسی بھی قسم کے اشتہارات دینا جس سے پریکٹشنر کی زاتی تشہیر مقصود ہومنع ہیں۔ کونسل نے حال ہی میں تمام مشہور زمانہ ٹی وی اور اخباری ہومیوڈاکٹرز کی رجسٹریشن کینسل کردی ہے اور نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا ہے
ٹی وی ریڈیو کے لئے میڈیکل کے شعبہ کے پروگرام براڈکاسٹ کرنے کیلئے بطور میزبان (Anchor person) خدمات دینے والے کو نا معلوم (Annoymous) ہونا چاہئے۔صرف کلینک کے اوقات کار میں تبدیلی یا جگہ کی منتقلی کا نوٹس اخبار میں دیا جاسکتا ہے۔اخبارات، رسائل یا کتب کی اشاعت میں بھی زاتی تشہیر سے اجتناب کیا جائے، کتاب کے مصنف ہونے کی صورت میں اپنا نام اور ایڈریس لکھ سکتے ہیں مگر تصویر چھاپنے سے گریز کریں۔ اسی طرح اپنے عہدہ کا تزکرہ بھی نہ کریں۔ ہومیوپیتھک مفید مشورہ صرف میڈیکل سے متعلقہ رسائل میں شائع ہو سکتے ہیں۔ کوئی پریکٹشنر یہ دعویٰ نہ کرے کہ آرام نہ آنے کی صورت میں فیس واپس کردے جائے گی۔

مریض کی پوشیدہ معلومات Privacy اور پیشہ ورانہ فرائض
ایک پریکٹشنر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مریض کی وہ معلومات جو اس نے علاج کے دوران حاصل کیں ہوں بغیر مریض کی اجازت کے کسی بھی صورت میں کیسی بھی فورم پر عیاں کرے یا چھاپے۔ حکومت کو بھی کسی پریکٹشنرسے کسی مریض کی زاتی یا بیماریوں کی تفصیل جاننے کا اختیار حاصل نہیں ۔ خاص حالات میں حکومت معلومات حاصل کرنے کے لئے پہلے نوٹیفکیشن کرتی ہے اور جج پریکٹشنرکو باقائدہ سمن کے زریعے عدالت طلب کرکے معلومات حاصل کرتا ہے ایسی صورت میں بھی پریکٹشنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مریض سے متعلقہ معلومات عیاں (Disclose) کر دے۔ بہرحال ہومیو پریکٹشنر کسی مریض کے بارے پولیس، وکیل یا اداروں کو معلومات فراہم کرنے کا پابند نہیں۔ ایسے جنسی امراض جو ایک مریض سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیںکی صورت میں معلومات کو عیاں کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مریض کسی ادارہ میں ملازم ہے اور وہ ادارہ پریکٹشنر سے مریض کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں بھی پریکٹشنر کو چاہئے کہ وہ مریض کی اجازت کے بغیر یہ معلومات مہیا نہ کرے۔انشورنس کے فارم بھرتے وقت پریکٹشنرپالیسی ھولڈر میں پائے جانے والی بیماریوں کے نام عیاں کرسکتا ہے مگر اس مرض کی وجوھات نہ لکھے۔ مثلاً اگر پالیسی ہولڈر کے بارے تشخیص ہو جائے کہ وہ ایڈز کا شکار ہے تو ایس صورت میں مرض ہونے کا سبب یا وجو ہات ضبط تحریر میں نہ لائے جس کی وجہ سے ایڈز ہوئی۔پریکٹشنرعلاقہ میں متعیں صحت عامہ کے عملہ یا دفتر کو علاقہ میں پائے جانی والی بیماریوں کے بارے معلومات فراہم کرسکتا ہے۔
ہومیوپریکٹشنرز کو چاہئے کہ نہ صرف وہ خود ان ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور اپنی اپنے پیشے کی نیک نامی میں اضافہ کریںبلکہ اپنی ساتھی اطبائ کو بھی اسکی ترغیب دیں۔